منشور
- قرآن و سنت فوقیت: متضاد قوانین کا فوری خاتمہ۔
- اخروی اور نبی کی ناموس کا تحفظ: ختم نبوتؐ کی حفاظت اولین ترجیح۔
- فیڈرل شریعی عدالت کے فیصلے مسجد کے فیصلے ثابت ہوں گے۔
- پارلیمنٹ کی حکمرانی مضبوط اور نافذ العمل ہوگی۔
- قانون سازوں کے لیے تربیتی اکیڈمی کا قیام عمل میں آئے گا۔
- تمام بین الاقوامی معاہدوں کی حتمی توثیق پارلیمنٹ سے ہوگی۔
- الیکشن کمیشن کو انتظامی، مالی و عدالتی آزادی دی جائے گی۔
- قومی جماعتوں میں ہم آہنگی کے ذریعے متناسب نمائندگی لائی جائے گی۔
- قانون سازوں کی اخلاقی اہلیت جانچنے کے لیے آزاد کمیشن قائم کیا جائے گا۔
- فنڈز کی تقسیم کے فارمولے میں نظرثانی عمل میں آئے گی۔
- بلدیاتی انتخابات اور مقامی حکومتوں کو آئینی تحفظ ملے گا۔
- مقامی خود مختاری کے لیے مالی طاقت منتقل کی جائے گی۔
- میڈیا کو آزاد اور جوابدہ بنایا جائے گا۔
- میڈیا کو اسلامی تہذیب و ثقافت کا علمبردار بنانے کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔
- اردو سرکاری زبان و تعلیمی ذریعہ ہوگی۔
- تمام سٹیک ہولڈرز کے مشورے سے اقتصادی منشور تیار کیا جائے گا۔
- سودی بنکاری کا خاتمہ اور سود کے نظام سے نجات۔
- بدعنوان کارٹلز کو ختم کر کے قیمتوں کا استحکام یقینی بنایا جائے گا۔
- ٹیکسیشن نظام منصفانہ طور پر نافذ کیا جائے گا۔
- GST 5٪ سے کم رکھا جائے گا، ترسیلات زر پر فیس میں کمی کی جائے گی۔
- بین الاقوامی قرضوں سے نجات کے جامع منصوبے بنائے جائیں گے۔
- گورنر State Bank کو پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ بنایا جائے گا۔
- زرعی ٹیکس، ای آبیانہ، ای مالیہ سمیت غیر ضروری اخراجات میں 30٪ کمی لائی جائے گی۔
- نجکاری کے بجائے عوامی اداروں کو مؤثر انتظامیہ کے ذریعے مؤثر اور منافع بخش بنایا جائے گا۔
- سیاسی اور سرکاری رہنماؤں کی لگژری مراعات ختم کی جائیں گی۔
- امیروں اور جاگیرداروں کی ٹیکس چھوٹ ختم کر کے 200 ارب سالانہ بچائے جائیں گے۔
- مؤثر احتسابی نظام تشکیل دیا جائے گا تاکہ رشوت و بدعنوانی مکمل طور پر ختم کی جا سکے۔
- صوبوں کو قدرتی وسائل پر پہلا حق دیا جائے گا۔
- غیر ضروری چیک پوسٹیں ختم کی جائیں گی، بلوچستان کے حقوق دوگوادر کا معاہدہ نافذ کیا جائے گا۔
- ناراض بلوچ قبائل کے ساتھ مذاکرات اور قومی دھارے میں شمولیت یقینی بنائی جائے گی۔
- ترقیاتی پیکجز کے ذریعے فاٹا کے ضم اضلاع کو برابر لایا جائے گا۔
- کراچی اور جنوبی پنجاب کے لیے الگ انتظامی صوبے بنانے کے اقدامات اٹھائے جائیں گے۔
- میٹرک تک مفت تعلیم اور اعلیٰ تعلیم میں مساوی مواقع فراہم کیے جائیں گے۔
- اسلامی ضابطے کے مطابق وراثت و ملکیت کے حقوق دلوانے کے قانونی اقدامات کیے جائیں گے۔
- ناجائز رسم و رواج، جہیز، چار وانی، وغیرہ کا قانونی خاتمہ کیا جائے گا۔
- تمام عوامی اداروں میں خواتین کے لیے علیحدہ ڈیسک قائم ہوں گے۔
- ان امیدواروں کی انتخابی حصہ داری اور سفر پر پابندی ہوگی جو خواتین کو حقوق نہیں دیتے۔
- طلبہ یونین کی بحالی اور تعلیمی اداروں میں انتخابات کروائے جائیں گے۔
- گریجویٹس کو زرعی یا بنجر زمینز لیز پر دی جائے گی۔
- یوتھ بنک قائم کر کے بلا سود قرضے اور تربیت فراہم کی جائے گی۔
- ڈیجیٹل پروگرام کے تحت انٹرنیٹ، لیپ ٹاپ و تربیت فراہم کی جائیں گے۔
- ہر شہر و دیہات میں کھیلوں کی سہولت اور نوجوان سرگرمیوں کے لیے فنڈز مختص کیے جائیں گے۔
- کسانوں کے قرضے بلا سود ہوں گے۔
- توانائی، بیج، کھاد، ادویات سب سستے اور با آسانی دستیاب ہوں گے۔
- دہانہ ترقیاتی منصوبہ کے تحت شہری سہولتیں دی جائیں گی۔
- دیہی علاقوں میں ایگرو انڈسٹری کا قیام یقینی بنایا جائے گا۔
- قومی لیبر پالیسی تیار کی جائے، مستقل ملازمتیں اور منصفانہ اجرتیں مقرر کی جائیں گی۔
- مزدوروں کو کارخانہ منافع میں حصہ دار بنایا جائے گا۔
- ان کو "پاکستانی برادری” کا متحدہ عنوان دیا جائے گا۔
- بلا تفریق شہری حقوق، روزگار اور تعلیم کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی۔
- ان کے عبادت گاہوں، جان، عزت و مال کا خوفزدہ تحفظ کیا جائے گا۔
- تنخواہوں اور پنشنز میں سالانہ اضافہ ہوگا۔
- پنشن کی خود کار ادائیگی اور معذور افراد کے لیے کوٹہ یقینی بنایا جائے گا۔
- پاسپورٹ، شناختی کارڈ, امیگریشن و کسٹم میں سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔
- نیشنل سکیورٹی پالیسی ماہرین کی مشاورت سے بن کر پارلیمنٹ سے منظور ہو گی۔
- پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی ترقی جاری رکھی جائے گی؛ کسی خارجی دباؤ کو قبول نہیں کیا جائے گا۔
- فوجی قیادت کا تقرر میرٹ و سینارٹی اصول پر ہوگا۔
- کسی غیر ملکی کو پاکستان کی حساس دفاعی معلومات تک رسائی نہ دی جائے گی۔
- کشمیر کا حق خودارادیت اور پاکستان کی سلامتی، اتحاد پر مبنی خارجہ حکمت عملی اپنائی جائے گی۔
- مسلم ممالک خصوصاً سعودی عرب، ترکی، ایران اور افغانستان کو ترجیح دی جائے گی۔
- پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے جلد مکمل کیے جائیں گے۔
- بھارت کے ساتھ کشمیر کے حل تک دوستانہ تعلقات برقرار رکھے جائیں گے۔
- اسرائیلی ریاست کو تسلیم نہیں کیا جائے گا، کوئی سفارتی رابطہ نہ ہوگا۔
- تمام بین الاقوامی معاہدے اسلامی اصولوں کے مطابق عمل میں لائے جائیں گے۔